Ek Khat aur Uska Jawab
مری جاناں، میں کوشش کر چکا لیکن
یہ مجھ سے ہو نہیں پایا
کہ دیرینہ محبت کو بھلا دینا نہیں ممکن
تمہیں معلوم ہے
جب تم نہیں تھیں
تب بھی تم ہی تھیں
تمہیں پانے کی حسرت تھی
تمہارے ہی خیالوں میں
کٹا کرتے تھے دن اپنے
تمہارا عکس تھا محفوظ آنکھوں میں
تو شب بھر خواب سارے چومتے تھے میری پلکوں کو
تمنا لمس کی میرے بدن کو اس طرح مہکایا کرتی تھی
کہ جیسے باغ تھا میں کوئی
تم رات کی رانی
تمہارا نام لیتا تھا
لبوں سے پھول جھڑتے تھے
تمہارا ذکر سنتا تھا
تو کانوں میں عجب سا شہد گھلتا تھا
جو تم سے بات کرتا تھا
تو من ہلکا سا لگتا تھا
جو پاس ائی تھیں تم میرے
لگا تھا مجھ کو ایسا بھی
کہ محور میں ہی تھا اک ساری دنیا کا
مرے ہی واسطے شمس و قمر سب رقص کرتے تھے
مرے ہی واسطے شام و سحر میں
موسموں میں
رونما تبدیلیاں سب تھیں
مرے ہی واسطے برگ و شجر سب سانس لیتے تھے
مری ہی منتظر رہتی تھیں کلیاں باغ کی سب جو
مرے ہونے سے کھلتی تھیں
مرے ہی واسطے گویا
ہر اک شئے وہ تھی ، جو وہ ہے، جہاں وہ ہے
تمہیں بھی یاد تو ہوگا
وہ شامیں کس طرح اپنی سی لگتی تھیں
وہ دن کتنے سہانے تھے
تھکن اور الجھنیں میری
مرے اوہام سارے
ختم کر دیتے تھے وہ لمحے
گزرتے تھے جو پہلو میں تمہارے۔
تمہارے گیسوں کی ٹھنڈی چھاوں میں
تپش میں زندگی کی بھول جاتا تھا
تمہارا لمس وہ زنبیل تھی جس میں
مرے ہر زخم کا مرہم نہاں تھا
اور اب تم بھول کر سب کچھ
بسی ہو دور جاکر مجھ سے کتنا ہی
مگر اب تک
تمہیں ہو سوچ میں میری
تمہیں ہو کھوج میں میری
تمہیں ہی ڈھونڈتا ہوں میں
میرے ہر ایک غم میں بھی
مری خشیاں تمہارے بن
تو بالکل ہی ادھوری ہیں
وہ دیرینہ محبت آج تک
اندر ہی ہے میرے
کبھی بس اک کسک بن کر
کبھی اک آس بن کر تم
کبھی سہما ہوا سا خواب بن کر تم
کبھی اجلی ہوئی اک یاد بن کر تم
کبھی بھولی ہوئی اک بات بن کر تم
میرے اندر ہی رہتی ہو۔
مجھے اقرار ہے اس کا
مجھے اب بھی
تمہیں سے بس محبت ہے
تمہاری بات ہر اک یاد آتی ہے
کمی محسوس ہوتی ہے تمہاری
ہر گھڑی، ہر ایک لمحے میں
تمہارا لمس تڑپاتا ہے مجھ کو اب
بدن میرا تو جیسے ایک ایندھن ہے
فقط جلتا ہے بجھتا ہے
مگر اب کوئی بھی خوشبو نہیں آتی۔
تمہارے بن مرا جینا
بہت مشکل ہوا جاتا ہے جانا
تمہاری ظلف کے سائے کی مجھ کو
اب بھی حاجت ہے
کہ اب بھی زندگی میری
جھلستی ہے، سلگتی ہے
سنورتی ہی نہیں لیکن
مگر میرا وہ تم سے گفتگو کرنا
تمہارا نام سن کر مسکرانا، اور
تمہاری الجھی ظلفوں میں
سرے وہ ڈھونڈنا سب زندگی کے
پھر اکیلے میں
معطر ذہن کر لینا
تمہارے ہی خیالوں سے
جو تم تھیں تو مری ہر راہ آساں تھی
تمہیں سے زندگی پھولوں کا بن بھی تھی
مگر کچھ بھی نہیں اب۔
اگر ممکن ہو پھر آکر
مری اس زیست کو گلزار کر دو۔
v
تمہارا خط ملا پڑھ کر
تعجب سا ہوا مجھ کو
کہ تم بھولے نہیں مجھ کو ؟
تمہیں اب بھی
مجھی سے اک محبت ہے؟
مگر میں سوچتی ہوں
کیا محبت بس یہی ہے؟
اگر یہ ہی محبت ہے تو اس میں
میں کہاں تھی؟
کہانی یہ تمہارے ہی سکوں کی تھی
تمہارے ہی جنوں کی تھی
تمہارے ہی فسوں کی تھی
تمہاری راحتیں بھی تھیں
تمہاری چاہتیں بھی تھیں
تمہارے غم ہی تھے اس میں
سبھی خو شیاں تمہاری تھیں۔
نہ ہوتی جب کبھی میں تو
فقط میرے خیالوں سے
کبھی بہلاتے تھے دل کو
کبھی سرمست ہوتے تھے۔
جو میں تھی تو
تمہیں آسان لگتی تھی
تمہاری زندگی بھی اور
تمہاری مشکلوں کا حل بھی میں ہی تھی
اور اب جو میں نہیں ہوں تو
تمہیں میری ضرورت ہے
تمہاری زندگی کی تلخیوں کو دور کرنے کو
انہیں گلزار کرنے کو۔
سنو جاناں۔
اگر یہ ہی محبت ہے تو پھر تم کو
فقط تم سے محبت تھی
مگر میں سوچتی ہوں کہ
محبت یہ نہیں ہے گر
تو پھر کیا شئے محبت ہے؟
محبت کو ضرورت سے الگ کیسے کیا جائے؟
تو کیا ممکن ہے دنیا میں
سبھی کو اصل میں اک دوسرے کی بس ضرورت ہو
سبھی روتے ہوں اپنا غم
فقط اپنا ہی غم
اور نام اس کو پھر محبت کا ہی دیتے ہوں؟
تو کیا ممکن ہے ایسا بھی
کہ بیٹا باپ کے مرنے پہ روتا ہو
فقط اس واسطے کہ اب وہ تنہا ہے
اور اس کے سر پہ اب سایا نہیں ہوگا
اسے اب بانہوں میں کوئی نہیں لے گا
نہ باندھے گا کوئی بھی اس کی ڈھارس اب
محافظ اب کوئی اس کا نہیں ہوگا
وہ بس فردا کی تنہائی کو لاچاری کو روتا ہو
وہ اپنی آنے والی مشکلوں کو
سوچ کر گھبرا رہا ہو اور
اسے اپنا ہی دکھ ہو بس
اسی کو رو رہا ہو وہ
پدر سے اس کو بھی ایسی محبت ہو
کہ جیسی تم کو مجھ سے ہے
مگر میں سوچتی ہوں کہ
اگر یہ ہی محبت ہے تو پھر اس کو
ضرورت سے الگ کیسے کیا جائے؟
محبت گر نہیں جب یہ
تو پھر کیا شئے محبت ہے؟
اگر معلوم ہو جائے
تو پھر لکھنا مجھے واپس۔
مجاہد مغل۔
No comments:
Write comments